غزل
اس شہر نگاراں کی اتنی سی کہانی ہے
صحرا میں سمندر ہے اور آگ میں پانی ہے
دنیا کی حقیقت کیا اور اس کی ضرورت کیا
ادنی سی تمنا میں کیا عمر کھپانی ہے
جو فرض تمہارا ہے اس کو تو ادا کر دو
جب موت کو آنا ہے اس وقت ہی آنی ہے
رستہ کا تعین گو انجام کا گویا ہے
جو چیز مقدر ہے وہ چیز ہی پانی ہے
کیوں رات کی تنہائی ہر ایک کو بھاتی ہے
خاموش فضاوں میں دریا کی روانی ہے
یہ دارو رسن والے کیا ہم کو ڈرائیں گے
اسلاف کی سنت ہے اور رسم پرانی ہے
جس شئی کی تمنائی محبوب کی آنکھیں ہیں
وہ چیز بھی مہنگی ہے اور دور سے لانی ہے
مشکل ہے بہت مشکل دنیا کو سمجھ پانا
چھوؤ تو بھکارن ہے دیکھو تو وہ رانی ہے
ہم جس کی محبت میں مرتے بھی ہیں جیتے بھی
بتلائے کوئی ہم کو کیا اس کا بھی ثانی ہے
ایوان محبت میں ہر ایک کا حصہ ہے
شبنم کی بدولت ہی کلیوں کی جوانی ہے
محمد امین احسن، بلریاگنج
غزل
خمار بادۂ الفت کا مجھ پر کچھ اثر بھی ہے
کسی میخانۂ امید میں میرا گزر بھی ہے
بشر کی دسترس اے محوِ حیرت چرخ پر بھی ہے
زمیں پہ رہنے والے کو ستاروں کی خبر بھی ہے
مری آنکھوں پہ اسرار محبت آشکارا ہیں
حدودِ قلب میں میری نگاہوں کا گزر بھی ہے
کوئی ظلمت گہہ عالم میں جاکر یہ خبر کردے
مجھے اب اعتبار جلوۂ نور سحر بھی ہے
میری تخریب میں تعمیر کا پہلو بھی مضمر ہے
مجھے اندیشۂ شب بھی ہے امیدِ سحر بھی ہے
کسی کے عارضِ گل رنگ پہ ٹھہرا ہوا آنسو
بظاہر ایک قطرہ ہے جو سمجھو تو گہر بھی ہے
تجاہل عارفانہ ہے تعارف جاہلانہ ہے
وہ میرے حالِ دل سے باخبر بھی بے خبر بھی ہے
مجھے اب بھی گلستاں کی فضائیں یاد آتی ہیں
میرا ذوق جنوں اخترؔ ابھی نامعتبر بھی ہے
اختر عظیم آفاقی فلاحی مرحوم،
راجستھان