0
جدید اسلامی تحریکات
(دو اہم اقتباسات)
جدید اسلامی تحریک ،جو ہر لحظہ رواں دواں ہے، اور مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جارہی ہے، ماضی سے روحانی غذا حاصل کرتی ہے، حال کے تمام پاکیزہ اور جائز ذرائع ووسائل کو کام میں لاتی ہے اور اپنی نظریں دور مستقبل پر گاڑے اپنی منزل مقصود کی جانب گامزن ہے۔ اس کا مستقبل روشن وتابناک ہے،اور اس کے ذریعہ وہی معجزہ ایک بار پھر رونما ہوسکتا ہے، جو پہلے ظاہر ہوچکاہے۔اس کے بعد انسان حیوانی خواہشات کا بندہ نہیں رہے گا،بلکہ دنیا کے جھنجھٹ میں پڑنے اور ’’پابہ گل‘‘ہونے کے باوجود وہ آزاد انسان کی طرح سر اٹھا کے چل سکے گا، کیونکہ اب اس کا منتہائے مقصود مادی لذتیں نہیں ہوں گی، بلکہ اس کی منزل چرخ نیلی فام سے بھی پرے ہوگی۔
(اسلام اور جدید ذہن کے شبہات۔محمد قطبؒ )زمین پر خداکی حکومت اس طرح قائم نہیں ہوسکتی کہ حاکمیت کے مالک خو د کچھ افراد بن جائیں۔ چاہے وہ مذہبی افراد ہی کیوں نہ ہو۔جیساکہ چرچ کی مذہبی حکومت میں تھا۔ یا ایسے افرادہوں جو دیوتاؤں کے نمائندے اور ان کے ترجمان ہوں، جیسا کہ اس نظام میں تھا جسے لوگ ’’تھیاکریسی‘‘ (Theocracy) یامقدس حکومت الٰہیہ کا نام دیتے ہیں۔ یہ حکومت تو بس اسی طرح قائم ہوسکتی ہے کہ حاکم بس شریعت الٰہی ہو ۔قوانین کا مأخد بس اللہ ہو۔اور اس نے جو ایک واضح شریعت بھیجی ہے، اسی پر عمل درآمد ہو۔زمین پر حکومت الٰہیہ کا قیام ہو۔ حاکمیت انسان کا بت پاش پاش ہو۔جو بندے غلط طور سے اقتدار پر قابض ہیں، انہیں اقتدار سے بے دخل کردیا جائے۔
(نقوشِ راہ ۔ سید قطبؒ )

تیسرا مرکز ملیبار
روایتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام اور عربوں کا تیسرا مرکز ہندوستان کا وہ آخری کنارہ ہے۔ جس کو ہندوؤں کے زمانہ میں کیرالا کہتے تھے اور بعد میں ملیبار کہنے لگے۔ (ملی پہاڑ اور بار ملک)اس کی حد عربی جغرافیہ نویسوں نے گجرات کے خاتمہ سے کولم واقع تراونکور تک بتائی ہے۔ پہلا مرکز سواندیپ اور دوسرامالدیپ رہاہے۔
تحفۃ المجاہدین کی روایت ہے جس کو فرشتہ نے نقل کی ہے:
’’اسلام کے پہلے اور اسلام کے بعد یہودی اور عیسائی سوداگر یہاں آیا کرتے تھے، اور یہاں بود وباش اختیار کرچکے تھے۔ جب اسلام پر دو سو برس گذرے عربی اور عجمی مسلمان درویشوں کی ایک جماعت حضرت آدم کے نقش قدم کی زیارت کے لیے سواندیپ جس کو لنکاکہتے ہیں جارہی تھی۔اتفاق یہ ہے کہ ان کا جہاز ہوا کے جھونکوں سے بہک کر ملیبار کے شہر ’’کدنگلور (کدنگانور)‘‘کے کنارے آکر لگا۔ شہر کے راجہ زیمور (سامری)نے ان کی بڑی آؤ بھگت کی۔ باتوں باتوں میں اسلام کا ذکر آگیا،راجہ نے کہا میں نے یہودیوں اور عیسائیوں کی زبانی تمہارے پیغمبر کا اور مذہب کا حال سنا ہے،اب تم خود سناؤ۔ درویشوں نے اسلام کی حقیقت کو اس مؤثر انداز سے بیان کیا کہ اس نے راجہ کا دل موہ لیا۔ راجہ نے ان سے وعدہ لیا کہ واپسی میں بھی وہ ادھر ہی سے گذرتے جائیں۔ چنانچہ وہ وعدے کے مطابق آئے۔ راجہ نے سب امراء کو بلاکر کہا کہ اب میں خدا کی یاد کرنا چاہتاہوں اور یہ کہہ کر ملک برابر برابر سب افسروں میں تقسیم کردیا اور خود چھپ کر ان درویشوں کے ساتھ عرب چلاگیا، اور مسلمان ہوگیا۔ اور ان درویشوں سے کہا کہ ملیبار میں اسلام کے پھیلانے کی صورت یہ ہے کہ تم لوگ ملیبار سے تجارت اور سوداگری کا کاروبار شروع کرو۔ اور اپنے امراء کے نام ایک وصیت نامہ لکھ کر سپر د کیا کہ ان پردیسی سوداگروں کے ساتھ ہرقسم کی مہربانی اورلطف کا برتاؤکیا جائے اور ہرنیک کام میں ان کی مدد کی جائے، اور ان کو اپنی عبادت گاہوں کے بنانے کی اجاز ت دی جائے اوراس طرح ان سے سلوک کیا جائے کہ ان کو وہاں رہنے کی اور اس کو وطن بنانے کی خواہش پیداہو۔ اس وقت سے عرب سوداگر اس ملک میں آنے جانے اور رہنے سہنے لگے۔
(عرب وہند کے تعلقات ،سید سلیمان ندویؒ )

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.