آنترپرینیورشپ کے بارے میں پہلے کئی بار سنا تھا اور یہ جاننے کی خواہش تھی کہ اس کا مطلب کیا ہوتا ہے۔ اگست کے شمارے کو دیکھ کر بڑی خوشی ہوئی کہ اس میں قدرے تفصیل سے اس کی وضاحت کی گئی ہے اور بہت ہی اچھے انداز میں اس پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ یہ موضوع اس وجہ سے بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اسلام سے اس کا بہت گہرا تعلق ہے جس کی جھلک مضامین میں دیکھنے کو ملی۔آنترپرینیورشپ کی موجودہ صورتحال کیا ہے، مسلمانوں کا اس سلسلے میں کیا لائحہ عمل ہونا چاہیے اور ان کے لیے اس میدان میں کیا مواقع ہیں، ان تمام پر مزید روشنی ڈال دی جائے تو یقیناً مفید ہوسکتا ہے۔ بطور خاص طلبائی دور میں تجارت کے کیا مواقع ہیں، ساتھ ہی طلبائی دور میں تاجرانہ صلاحیتوں کی طرف بھی رہنمائی کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔
عام طور پر تجارت کی طرف مسلمانوں کا رجحان بہت کم ہے، بلکہ نا کے برابر ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر قرآن و سنت کی روشنی میں اس کو پیش کیا گیا اور حالات سے باخبر کرایا گیا تو اس کے خاطر خواہ نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ مجموعی طور سے شمارہ بہت عمدہ اور تمام ہی مضامین و ملحقات قابل تعریف ہیں۔
محمد اسلم
میوات ۔ہریانہ
تمام ہی تحریریں فکر انگیز
ماہ اگست کا شمارہ اپنے مختلف النوع مضامین پر فکری تحریروں کے ساتھ ملا۔ فہرست مضامین پر طائرانہ نظر ڈالی تو گوشئہ نظر میں ایک تحریر محمد صادق پرویز صاحب کی بعنوان ‘زراعت سے متعلق شعبوں میں تجارتی مواقع پڑھی۔ بہت ہی عمدہ تحریر تھی۔ میں نے رفیق میں اس طرح کا مضمون پہلی بار پڑھا۔ صادق صاحب نے زراعت کے ایسے شعبے جن میں کم لاگت میں منافع بخش تجارت کی جا سکتی ہے، اس پر تفصیل سے بیان کیا ہے۔ مثلاً مدھو مکھی پالن، مشروم کی کھیتی، پولٹری فارم مینجمنٹ ماہی گیر پیشہ۔ ہم امید کرتے ہیں کہ وہ آئندہ بھی اسی طرح قارئین رفیق کی فکری اور علمی رہنمائی کا سامان بہم کرتے رہیں گے۔ ڈاکٹر سلیم خان صاحب کی تحریر بعنوان ‘گائے کی سیاست بیل کی عدالت نہایت عمدہ تحریر لگی۔ آج گو ہتیا کے نام پر انسانوں کی جان لی جا رہی ہے اور پردھان سیوک خاموش ہے۔ مودی حکومت کے آنے کے بعد گائے سے متعلق دہشت گردی میں 97 فیصد تک اضافہ ہوا ہے مگر بکاؤ میڈیا اسے نہیں دکھا سکتا۔ ہندوستان میں گائے ماتا ہے مگر گوشت باہر ایکسپورٹ کرنے کے لیے نہیں ہے۔
امید ہے کہ رفیق منزل اپنے قارئین تک اسی طرح مختلف موضوعات پر مضامین کے ذریعہ معلومات فراہم کرتا رہے گا۔ اللہ ہماری مدد فرمائے۔ آمین
متین اشرف
اے۔ایم۔یو ۔ علی گڑھ
رفیق منزل کا ماہ اگست کا شمارہ موصول ہوا۔ پڑھنے اور غور کرنے کے بعد جو احساس ہوا وہ یہ کہ کہیں نہ کہیں اس کا معیار پہلے کے بالمقابل بلند ہوا ہے اور خصوصاً اس کا ٹائٹل کافی عمدہ ہے۔ ایک بڑی تبدیلی یہ محسوس ہوئی کہ مختلف النوع مضامین کو الگ الگ کالم میں تقسیم کیا گیا ہے جس سے رسالہ کی خوبصورتی اور افادیت دونوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ادھر چند ماہ کے رفیق منزل کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ محسوس ہورہا ہے کہ جہاں ایک طرف اس کے معیار میں بلندی آئی ہے وہیں دوسری طرف ایک خاص مرکزی موضوع کے تحت مختلف مضامین کو قلم بند کیا گیا ہے۔ ماہ اگست کے شمارے میں آنترپرینیرشپ کے تحت مختلف عناوین پر کئی مفید مضامین پڑھنے کو ملے ۔ شمارے میں پروف ریڈنگ کی بڑی کمی محسوس ہوئی جوکہ فہرست سے لے کر مضامین کے اندر تک نظر آئی اس جانب خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
نبیل احمد
جامعۃ الفلاح ۔اعظم گڑھ
روہنگیائی مسلمانوں پرہونے والے مظالم کے بارے میں بہت کچھ سنا، لکھا، کہا اور دیکھا جارہا ہے۔ برما کی وزیر اعظم اور دلائی لامہ کے کمزور بیانات مسلمانوں کے حوالے سے ان لیڈروں کی غیر سنجیدگی کا مظہر بھی ہے۔ اس سب کے دوران تشویش ناک بات یہ ہے کہ بیشتر مسلمان سوشل میڈیا پر اندھا دھند تصاویر شیئر کرنے میں مصروف ہیں، جس میں بیشتر تصاویر پرانی ہیں یا سیلاب سے متاثرہ دیگر علاقوں کی ہیں۔ اس بہتات میں دراصل ایک مایوسی کی نفسیات پروان چڑھتی ہے۔ لہٰذا ہمیں ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے سنجیدگی سے اس سارے ایشو کی معلومات سے خود کو اور دنیا کو واقف کراتے ہوئے حکومتی اداروں تک اپنی آواز کو پہنچانا ہوگا، اور استقامت کے ساتھ خدائے اب العزت سے خصوصی دعا ئیں کریں۔
مونس انصاری
بھیونڈی