ہر گھر کی آواز اور منزل کا ایک بہترین رہنما
اللہ تعالی کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں اسلام کی رحمت سے مالامال کیا، اور خصوصی مہربانی سے نبی آخرالزماں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں پیدا فرمایا، جس کی دو تعلیمات انتہائی سادہ، آسان اور فطرت کے عین مطابق ہیں۔ اسلام مادر پدر آزاد معاشرہ پسند نہیں کرتا، اور نہ اس دین میں جنگل کا قانون روا ہے، بلکہ حلال وحرام، جائز وناجائز، صحیح غلط کی پہچان کے لیے کچھ قواعد وضوابط مقرر ہیں۔ مگر اس دور پرفتن میں آج کا انسان ان اصولوں سے بے بہرہ اور ناآشنا ہوچکا ہے، رشوت خوری، سود خوری، خاص کر زنا کی وبا کا دور دورہ ہے۔ فلمی دنیا میں جو کچھ بھی پردے پر گھروں میں جو کچھ بھی ٹیلی ویژن پر اظہار کیا جاتا ہے، لوگ اس کو اپنی زندگی میں ڈھالنے کی بڑھ چڑھ کر کوشش کرتے ہیں۔ خاص کر امت مسلمہ میں بھی وہ کالی بھیڑیں موجود ہیں جو ان چیزوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتی ہیں، لہذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مجلہ رفیق منزل اس وقت ہر گھر کی آواز اور منزل کا ایک بہترین رہنما بن جائے، لہذا مجلہ میں دور حاضر کے ان ناسوروں پر ایک خصوصی کالم شائع کریں، تاکہ کسی حد تک ہر ذی شعور انسان ان ناسوروں کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے۔
نذیر احمد، مقام مذکور نہیں
دو اھم تحریریں
ماہنامہ رفیق منزل کا تازہ شمارہ دیکھا، کافی اہم اور دلچسپ تحریروں سے مستفید ہونے کا موقع ملا۔ ادب اطفال پر سرورق کی کہانی کے علاوہ ایک تو ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کی تحریر کافی اہم ہے۔ اس میں جن امور، بالخصوص قدیم علمی ورثہ کے سلسلے میں جس بات کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ تحریک اسلامی کے لیے یک گونہ اہمیت رکھتی ہے کہ ’’ اب ہمیں اور آپ کو یہ کرنا ہے کہ وہ حالات جو انھوں نے نہیں پائے تھے اور ہم نے پائے ہیں ان حالات کو ہم پوری طرح فیس کریں اور اس میں وہ کام کریں جو انھوں نے اپنے حالات میں کیا تھا۔ یہ ہے ان کی تکریم، ان کی تقلید، اور ان کے نقش قدم پر چلنا۔ یہ نہیں ہے کہ جو انھوں نے کیا وہی آپ بھی دہرائیں، اب اگر آپ اس بات کو سمجھ گئے کہ بزرگوں کے نقش قدم پر چلنا اس معنی میں نہیں ہے کہ اس کو دوبارہ کیجئے جو وہ کرچکے ہیں، بلکہ اس معنی میں ہے کہ جو مقاصد ان کے سامنے تھے اس کے لیے انہوں نے اپنے زمینی حالات کو دیکھتے ہوئے جو چیلنجز سمجھے ان کا سامنا کیا، اسی طرح آپ اپنے حقائق کو اچھی طرح سمجھئے اور ان چیلنجز کو سمجھنے کی کوشش کیجیے جوآج آپ کے سامنے ہیں۔‘‘
اسی طرح ڈاکٹر موصوف کی یہ بات بھی کافی اہم اور عملی زندگی سے تعلق رکھتی ہے کہ ’’ انسان دو چیزوں سے متأثر ہوتا ہے، ایک تو ماینفع الناس سے اور دوسرے آپ کے اخلاق سے، آپ دوسروں کو اپنے وقت، مال اور صلاحیت سے کتنا دے سکتے ہیں۔ یہ چیزیں ایسی ہیں جن کے ذریعہ ہم غلط فہمیوں کے اس سیلاب کو روکنے کی کوشش کرسکتے ہیں، اور اسلام کے خلاف غلط پروپگنڈہ کو ختم کرسکتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب موصوف کی پوری تحریر اپنی جگہ کافی اہم ہے، ضرورت ہے کہ اس میں جن باتوں پر گفتگو کی گئی ہے، ان کو ہم اپنے یہاں موضوع گفتگو بنائیں، اور مستقل طور پر اپنا جائزہ اور احتساب لیتے رہیں کہ ہم کہاں کھڑے ہیں اور ہمیں کیا کچھ کرنا ہے۔
دوسرا یہ کہ ذکر رفتگاں کے تحت جناب سید عبدالباری شبنم سبحانی مرحوم کی حیات وخدمات کا بہت ہی اختصار اور جامعیت کے ساتھ تعارف کرایا گیا ہے، اللہ رب العزت انہیں اپنی رحمت کے سایہ میں جگہ دے۔ یقیناًبقول ابن اسد’’شبنم سبحانی بنیادی طور سے ادب کے آدمی تھے، انہوں نے اس محاذ کو سنبھالا،ا ور تاحیات اس وسیع اور مؤثرمیدان میں تحریک اسلامی کے عظیم پیغام کی اشاعت کے لیے کوشاں وسرگرداں رہے۔ موصوف کا یہ شعر اُن کی فکر اور شخصیت کا بہترین تعارف ہے
مرے جنوں کا سفر، میری خستگی کا مآل
نئے نظام کی خواہش، نئی سحر کی تلاش
مری نوا، میرا پیغام، میرا حرف مدار
مرے جنوں کا سفر تاحیات زندہ باد
تاہم شبنم سبحانی کا میدان صرف ادب تک محدود نہیں تھا، بلکہ وہ اس سے آگے بڑھ کر ایک زبردست صحافی، ایک عظیم اسلامی دانشور، اور غیررسمی طور پر تحریک اسلامی کے ایک فعال کارکن بھی تھے۔ ادارہ ادب اسلامی ہند کے تو صحیح معنوں میں وہ روح رواں تھے، اورحقیقت یہ ہے کہُ ان کی رحلت سے ادارہ ایک ایسے رہنما سے محروم ہوگیا، جو نہ صرف ادارے کا ایک مخلص سرپرست تھا، بلکہ صحیح معنوں میں ادارے کی شناخت تھا۔‘‘ اور یہ کہ ’’آپ کے بعداِس حلقے میں دُور دُور تک کوئی ایسا قدآور رہنما نظر نہیں آتا، جو ہر حلقے میں یکساں طور پر اِس قدرمقبول اور متحرک و فعال نظر آئے،جس کو دیکھ کر یہ خیال یقین کی جگہ لے سکے کہ’’ادب اور سماج میں بہت ہی گہرا رشتہ ہوتا ہے‘‘!!‘‘
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہندوستان کی تحریک ادب اسلامی کو ڈاکٹر سید عبدالباریؒ کا نعم البدل عطا فرمائے۔ اور ہم سب کو بانداز بہتر تحریک اسلامی کی خدمت انجام دینے کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
عمارہ احمد، اعظم گڑھ
Prev Post
Next Post