0

مصر کے اوپر بہترین مضامین

آج میڈیا کی صورتحال کا کیا کہنا! کسی بھی واقعے کے بارے میں اگر آپ چاہتے ہیں کہ میڈیا کے ذریعہ صحیح معلومات اور واقعات تک رسائی حاصل کرلیں، تو یہ بہت ہی مشکل چیز ہے۔ میڈیا نے جس طرح سے اپنا اعتماد کھویا ہے، وہ ایک المناک داستان ہے، جس کے بیان کا یہاں موقع نہیں، البتہ یہاں جو بات عرضی کرنی ہے وہ یہ کہ مصر کے تعلق سے کبھی بھی میں نے میڈیا کو سچ بولتے نہ تو سنا اور نہ ہی دیکھا۔ دس کو ایک اور ایک کو دس بتانے والا یہ میڈیا مستقل مصر میں ایک منتخب جمہوری حکومت پر شب خون مارنے کے لیے ماحول تیار کرتا رہا، اور بالآخر ۳؍جولائی ۲۰۱۳ ؁ء کو وہ بدترین دن آہی گیا، جب ملک کی ایک مستحکم ہوتی آزاد جمہوری حکومت جس کے صدر ڈاکٹر محمد مرسی تھی، اس کے خلاف عالمی، علاقائی اور داخلی سازشوں کے نتیجے میں فوج نے نہ صرف بغاوت کا اعلان کردیا، بلکہ اس کے بعد سے انسانی اقدار کی جس طرح پامالی کی گئی وہ ایک دردناک داستان ہے۔ اداریے میں اس پورے واقعے کا بہترین تجزیہ کیا گیا ہے، اور آخر میں جو سوالات پیش کئے گئے ہیں وہ بہت ہی اہم اور قابل غور ہیں۔ رفیق میں جس طرح آپ لوگوں نے پورے واقعے کا مختلف پہلوؤں سے تجزیہ کیا ہے، بہت ہی اہم چیز ہے۔ پرواز رحمانی کا تجزیہ، جاوید ظفر، عابد انور، انصار ابوبکر، صلاح الدین ایوب، سید سعادت اللہ حسینی وغیرہ کے تجزیے کافی اہم ہیں اور کئی ایک اہم سوالات کا جواب پیش کرتے ہیں۔ ایس آئی او آف انڈیا اور جماعت اسلامی ہند کی جانب سے جاری کردہ بیانات بھی دیکھے، دونوں میں واضح فرق بھی محسوس کیا، یقیناًکچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی۔خیر مجھے اس سے آگے بڑھ کر سوال پوری ملت اسلامیہ ہند سے ہے کہ پوری دنیا میں، مغربی دنیا میں بھی اور عرب دنیا میں بھی احتجاج زوروں پر جاری ہیں، برصغیر کے ممالک میں بھی احتجاج جاری ہیں، جس میں ہزاروں لاکھوں افراد مصر کی منتخب جمہوری حکومت کی تائید کا اعلان کررہے ہیں، کیا ملت اسلامیہ ہند جو امت کی ایک بڑی عددی قوت ہے، کیا اس کو واقعے کی کچھ بھی خبر ہے! ہاں، اگر خبر ہے تو وہ اس قدر خاموشی کا مظاہرہ کیوں کررہی ہے۔ کیا جمہوری، انسانی اور اخلاقی بنیادوں پر بھی ایک احتجاج کرنا ان کے لیے مشکل ہے، ملت اسلامیہ ہند آج امت کے عالمی مسائل کے سلسلے میں جس بے حسی کا مظاہرہ کررہی ہے، وہ انتہائی خطرناک ہے، یقیناًاللہ رب العزت کے یہاں اس کی بازپرس ہوگی، جہاں کوئی جھوٹا حیلہ اور بہانہ کام نہیں آئے گا۔
محمد ثاقب، علی گڑھ

 

سعودی عرب میں بھی انقلاب آئے گا

مصر کے سلسلے میں رفیق منزل کے ذریعہ بہت سی ایسی باتیں معلوم ہوئیں جو ہمارے لیے بالکل ہی نئی تھیں۔ مدیر محترم نے جس طرح عرب حکمرانوں کا نقشہ کھینچ کر رکھ دیا ہے، اس سے ان کی تصویر بالکل واضح ہوکر سامنے آگئی ہے۔ تاریخ کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ کیسے کیسے اس امت کو ایک جذباتی امت بنایا گیا، اور پھر کس طرح اس کارشتہ معقولیت سے کاٹ کر بری طرح سے اس کا جذباتی استحصال کیا گیا۔ لیبیا کے قذافی سے لے کر سعودی عرب کے شاہ عبداللہ تک ایک طویل داستان ہے کہ کس طرح انہوں نے امت کا، امت کے جذبات کا، امت کے مستقبل کا اور امت کی غیرت وحمیت کا خون کیا، اور اس کے باوجود وہ قائد اعظم اور خادم الحرمین بنے رہے، اور امت کے جھوٹے قائدین اور چند ٹکوں پر فروخت ہوجانے والے علماء ان کی قصیدہ خوانی میں مصروف رہے۔ میں یہ کہتا ہوں کہ عرب انقلابات کیا آئے، بالکل شیر جاگ گیا،یقیناًاب دھیرے دھیرے سب کا خاتمہ ہوگا۔ مصر کے سلسلے میں سعودی عرب اور امارات نے جو گھناؤناکھیل رچا ہے، یہی چیز ان دونوں کے خاتمے کا سبب بنے گی۔ امت کا شعور بیدار ہورہا ہے، اب وہ خانہ کعبہ کے پتھروں کے مقابلے میں خانہ کعبہ کے رب سے وابستہ ہوچلی ہے۔ اب اس کو احساس ہوچلا ہے کہ امت کس قدر قیمتی ہے، اس کا مستقبل کس قدر قیمتی ہے، اور اس کی راہ میں کون کون سی رکاوٹیں ہیں۔ امت اب اس چیز کو اچھی طرح جان گئی ہے کہ اس کے لیے امریکہ اور اسرائیل اتنے خطرناک نہیں ہیں جتنے خطرناک ہمارے اپنے عرب حکمراں ہیں۔
احمدشفاعت علی، لکھنؤ

 

پرواز رحمانی کا تجزیہ

ماہ اگست کا رفیق ملا، سرورق دیکھتے ہی طبیعت پریشان ہوگئی، جلدی جلدی نظردوڑائی، اداریہ اور پھر مصر کے تعلق سے مضامین۔ معلوم ہورہا تھا کہ میں اس دنیا سے بالکل بے خبر ہوکر جی رہا ہوں۔ حیرت انگیز معلومات!! بالخصوص جناب پرواز رحمانی صاحب کا تجزیہ پڑھ کر انتہائی حیرت ہوئی کہ کس طرح اسلام آج اس دنیا میں چوطرفہ یلغار کا سامنا کررہا ہے۔ حرم کے پاسباں اور حرم پر حملہ کرنے والے ایک ساتھ مل کر حرم کی تباہی کا سامان کر رہے ہیں، میں ان جملوں کو بار بار دیکھتا ہوں کہ ’’(۱)پوری نام نہاد جمہوری دنیا جس کا سرغنہ امریکہ ہے، بے نقاب ہوگئی، خود مغربی جمہوری طریقے سے منتخب حکومت کے خاتمے اور فوجی آمریت کی واپسی پر وہ شادیانے بجارہی ہے۔ (۲)دولت مند مسلم مملکتوں کے حکمرانوں کی یہ گھناؤنی حقیقت امت پر کھل گئی کہ وہ اسلام اور امت مسلمہ کے وفادار نہیں، اسلام اور امت کے دشمنوں کے غلام ہیں۔ دین و شریعت کے مقابلے پر انہیں امریکہ اور اسرائیل کی دوستی زیادہ عزیز ہے۔ (۳)اسلامی نظام حیات کے خلاف تمام دوست دشمن ایک ہوگئے۔ امریکہ اور اس کے دشمن سمجھے جانے والے ممالک ایک ساتھ ہیں۔ شام کا فوجی ڈکٹیٹر اور خلیج کے خاندانی فرماں روا ایک ساتھ جشن منارہے ہیں۔‘‘اللہ یقیناًاسلام اور اہل اسلام کی حفاظت فرمائے گا۔
محمد اطہرخان، نئی دہلی

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا.