ماہِ رمضان -تبدیلی کا بہترین محرک
:رمضان المبارک کی اہمیت و فضیلت
زمین، آسمان اور کائنات کے تمام دینوں میں سب سے عظیم و آفاقی دین اسلام ہے۔ دین اسلام کے پانچ ستونوں میں سے ایک اہم ستون روزہ ہے۔ امت مسلمہ رمضان کے مبارک اور برکتوں سے پر نور مہینے میں روزوں کا اہتمام کرتی ہے۔ ہجری کیلنڈر کے تمام مہینے اپنے اپنے حساب سے اہمیت کے حامل ہیں لیکن اہمیت و افادیت اور فضیلت کے معاملے میں رمضان المبارک کو باقی سارے مہینوں پر سبقت حاصل ہے۔ ایک موقع پر حضرت جبرائیلؑ نے دعا کی کہ "ہلاک ہوجائے وہ شخص جس کو رمضان المبارک کا مہینہ نصیب ہو اور وہ اپنی بخشش نہ کرواسکے۔” جبرائیلؑ کی اس دعا پر آنحضرت محمد ﷺ نے ارشاد فرمایا آمین! رمضان المبارک پر حضرت جبرائیلؑ کی یہ دعا اوراس پر آنحضرت محمد ﷺ کا آمین کہنا رمضان کی اہمیت اور فضیلت کو سمجھنے کے لیے کافی ہے۔ یہی وہ مقدس اور پاک مہینہ ہے جس میں اللّٰہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ پر قرآن مجید کے نزول کا آغاز کیا۔ اسی پاک مہینے میں اللّٰہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے نیکیوں پر ثواب کو ستر گنا بڑھا دیا ہے۔ اسی مقدس مہینے میں شیطان قید کر لئے جاتے ہیں۔ اس مہینے میں اللّٰہ تعالیٰ نے ہم سے بے پناہ رحمت، مغفرت اور جہنم سے رہائی کا وعدہ کیا ہے بشرطیکہ ہم اس کے طلبگار ہوں۔
ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے انصار کی ایک عورت سے فرمایا کہ "تمہیں ہمارے ساتھ حج کرنے سے کس چیز نے روکا؟ اس نے کہا، ‘ہمارے پاس صرف دو اونٹ تھے جو ہم پانی لانے کے لیے استعمال کرتے تھے۔’ چنانچہ اس کا شوہر اور بیٹا ایک اونٹ پر حج کے لیے گئے تھے اور دوسرے اونٹ کا کام پانی لانا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب رمضان آئے تو عمرہ کے لیے جاؤ، کیونکہ رمضان میں عمرہ حج کے برابر ہے(البخاری)۔ ایک روایت کے مطابق،”۔۔۔میرے ساتھ حج کرنے کے برابر ہے۔” (مسلم)
!!!بےشمار نعمتوں میں سے ایک نعمت: روزہ
اللّٰہ تعالیٰ نے عبادت کے جتنے طریقے ہمیں بتائے یا ہم پر فرض کئے ہیں ہر طریقے میں اللّٰہ رب العزت کی کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہے۔ ان عبادات کا بنیادی مقصد انسانی جسم کی بالیدگی اور روح کی اصلاح کا فلسفہ ہے۔ یوں تو زمین، آسمان میں موجود ہر شے چاہے وہ جاندار ہو یا بےجان، یہاں تک کہ کائنات کا ذرہ ذرہ اللّٰہ تعالیٰ کی حمدو ثنا میں مشغول رہتا ہے۔ لیکن عبادات کے جو احکام و فرائض انسانوں کو عطا کئے گئے ہیں ان سے دوسری مخلوقات محروم ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: "جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور برے کام نہیں چھوڑتا تو اللہ تعالیٰ کو اس کا کھانا پینا چھوڑنے سے کوئی غرض نہیں۔” (صحیح البخاری)
روزہ اللّٰہ سبحان و تعالیٰ کا عطا کردہ بیش قیمتی تحفہ ہے۔ یہ ایک عظیم عبادت ہے جو ہر بالغ مسلمان پر فرض کردی گئی ہے۔ روزے کا مقصد طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک صرف کھانے پینے سے دور رہنا نہیں ہے بلکہ اپنی ذات میں تقویٰ اور پرہیزگاری پیدا کرنا ہے۔ خود کو فحش کلامی، جنسی خواہشات، بدتمیزی، چغلی، جھگڑے فساد اور دوسری ناجائز چیزوں کی چاہ سے دور رکھنے کا نام روزہ ہے۔ روزے کی حالت میں ہماری نیت صرف یہ ہونی چاہیے کہ ہم اپنے رب کے لئے کھانے اور پینے سے دور رہیں گے چاہے ہمارے سامنے کتنے ہی لذیز پکوان آ جائیں لیکن ایک منٹ کے لئے بھی دل میں اس پکوان کو کھانے کی خواہش نا آنا یہ اصل روزہ ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ کے لئے اپنی نفسی خواہشات پر قابو پانا ہی تقویٰ ہے۔ ایک حدیث کے مطابق "روزہ ایک ڈھال ہے، اس لیے روزہ دار کو فحش کلامی اور جاہلانہ رویے سے پرہیز کرنا چاہیے۔ اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑنے لگے تو اسے یہ کہنا چاہئے کہ میں روزے سے ہوں۔ میں روزے سے ہوں۔” (صحیح البخاری)رمضان میں چھوٹی چھوٹی چیزوں پر بڑے بڑے ثواب عطا کئے جاتے ہیں۔ رمضان المبارک کا ہر لمحہ ہمیں اپنی غفلت میں سوئی ہوئی روح کو بیدار کرنے اور اسے اللّٰہ کی عبادت مشغول کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ا س مہینے سے اللّٰہ رب العزت کا خصوصی اور گہرا تعلق ہے۔ اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ اگر ہم نے صحیح نیت اور اللّٰہ کی خوشنودی کی خاطر روزہ رکھا ہے تو روزے کی بھوک، پیاس اور شدت ہمیں محسوس نہیں ہوتی۔ روزہ رکھ کر بھی ہم اپنے روز مرہ کے کاموں کو بحسن وخوبی انجام دے پاتے ہیں۔ اس کے علاوہ دوسری عبادات ، نماز، قرآن کی تلاوت و تفسیر اور ذکر و اذکار وغیرہ بھی اپنے اپنے وقت پر پورے ہوتے ہیں۔ یہ سب یونہی ممکن نہیں ہوتا بلکہ اس میں اللّٰہ تعالیٰ کی نصرت اور مدد شامل ہوتی ہے کہ روزے میں انسان کی قوت اور طاقت باقی دنوں کے مقابلے بڑھ جاتی ہے۔
:روزہ: نفسیات و جذبات پر قابو پانے کا اہم ترین ذریعہ
عبادات جیسے کہ نماز، زکوٰۃ، حج وغیرہ ایسی عبادات ہیں جو آج ظاہری بڑائی، دکھاوے کا اہم ذریعہ بن گئی ہیں۔ اگر کوئی مہمان ہمارے گھر آجائے تو ہماری نمازیں اطمینان بخش اور سجدے طویل ہوجاتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ذکوۃٰ ادا کرتا ہے تو کیمرے اور فوٹوگرافی کا پورا اہتمام کیا جاتا ہے۔ حج پر جانے والے زیادہ تر لوگ اسے ایک پبلیسٹی سٹنٹ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ہر ایک جگہ کھڑے ہوکر سیلفیز کھینچی جاتی ہیں۔
نام نبی تو ورد زباں ہے ناؤ مگر منجدھار میں ہے
سوچ رہا ہوں اب بھی یقیناً کوئی کمی کردار میں ہے
اس کے برعکس روزہ جھوٹ، دکھاوے اور منافقت کی نفی کا نام ہے۔ یہ عمل خالصتاً اللّٰہ تعالیٰ کے لئے کیا جاتا ہے۔ روزہ میں دکھانے یا جتانے کا کوئی عنصر نہیں ہے۔ روزہ ایک ایسا طریق عمل ہے جو روزہ دار اور اللّٰہ تعالیٰ کے درمیان ہوتا ہے۔ اس میں کسی تیسرے کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ روزہ ایک ایسی عبادت ہے جس میں انواع و اقسام کے لذیز پکوان، مشروبات انسان کے سامنے موجود ہوتے ہیں، یہاں تک کہ کوئی روکنے، ٹوکنے یا دیکھنے والا بھی نہیں ہوتا۔ لیکن روزہ دار محض اپنے رب کی اطاعت اور اس کی فرمانبرداری کی خاطر غروب آفتاب تک بھوک، پیاس، گرمی وغیرہ برداشت کرتا ہے۔ روزہ اپنی ذات کا جائزہ لینے اور اپنے کردار میں تقویٰ، پرہیزگاری اور عاجزی پیدا کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ رمضان المبارک کا یہ مقدس مہینہ ہر مسلمان کے لئے وقفۂ مشق (Training Period) ہوتا ہے اس ایک مہینے میں ہم جتنے بھی نیک اعمال کرتے ہیں، جس طرح اپنے نفس پر قابو رکھتے ہیں، جس طرح فحش اور برے کاموں سے پرہیز کرتے ہیں۔ باقی گیارہ مہینوں میں ہمیں اسی ٹرینینگ کا استعمال کرنا ہے۔ جو کچھ ہم نے رمضان المبارک میں سیکھا اور جانا ہے اسے باقی گیارہ مہینوں کے دوران بھی اپنی زندگیوں میں نافذ کرنا ضروری ہے۔ رمضان المبارک میں انسان کی سیرت و کردار، افکارو عبادات اور نفس میں بے شمار تبدیلیاں رونما ہوتی ہیں۔ رمضان المبارک میں کی گئی اپنے کردار کی تربیت پر سال بھر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہم اپنی زندگی کا ہر دن رمضان المبارک کی طرح گزاریں تو انشاء اللہ ہماری موت عید جیسی دلکش اور خوشنما ہوگی۔
:کردار و گفتار میں غیر معمولی تبدیلی
سماج میں امیر و غریب، آزاد و غلام، بڑے و چھوٹے، کمزور و طاقتور ہر طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ معاشرتی نظام میں پائے جانے والے بیشمار پیشوں کے باعث سماج میں لوگوں کی آمدنی اور درجہ بھی کم اور زیادہ میں ناپا جاتا ہے۔ کچھ لوگ پیدائشی امیر ہوتے ہیں اور کچھ غریب۔ ان کے علاوہ کچھ ایسے بھی لوگ ہوتے ہیں جو روٹی، کپڑا اور مکان جیسی بنیادی چیزوں کے لئے بھی مجبور ہوتے ہیں۔
روزہ ہمیں اپنی نفسیات پر قابو کرنا سکھاتا ہے۔ روزے کی حالت میں انسان کو احساس ہوتا ہے کہ کھانا، پینا، دولت، اور دوسری آسائشیں جو ہمیں میسر ہیں وہ اللّٰہ رب العزت کی کتنی بڑی نعمت ہیں۔ روزے میں انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس دنیا میں نا جانے کتنے ایسے لوگ ہیں جو سال کے بارہ مہینوں میں نا جانے کتنے دن بنا کچھ کھائے پیئے گزارتے ہوں گے۔ روزہ سے انسان میں عاجزی اور شکر خداوندی پیدا ہوتی ہے۔ انسان ایک دوسرے کے دکھ درد کو نا صرف محسوس کرنے لگتے ہیں بلکہ ان تکالیف اور درد کو دور کرنے کی کوشش بھی کرتے ہیں۔ سماج میں پھیلی اونچ نیچ اور اعلیٰ ادنی کے فرق میں بھی بڑی حد تک کمی آجاتی ہے۔ دعوتوں اور ریستورانوں میں امیر غریب، بڑا چھوٹا سب ایک جیسے ٹیبل پر بیٹھ کر ایک ساتھ افطار کرتے ہیں۔ امت میں بھائی چارے کی فضا قائم ہوتی ہے۔ ماہِ رمضان ہمیں وقت کی پابندی اور اس کی اہمیت و افادیت سے روشناس کراتا ہے۔ ماہ رمضان میں ہمارے ہر کام مطعینہ وقت پر عمل میں آتے ہیں۔ جس سے ہمیں وقت کی قوت کا احساس ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں انسان کے دل کشادہ اور سخاوت سے بھرپور ہوجاتے ہیں۔ اس مبارک مہینے میں ہر استطاعت رکھنے والے شخص پر زکوٰۃ کی صورت میں غریب غربا کی مدد فرض کردی گئی ہے۔ اس کے علاوہ صدقہ فطر کی شکل میں بھی لوگوں کی امداد کو ترجیح دی گئی۔ اس ماہ میں ہمیں اللّٰہ تعالیٰ کی عطا کردہ دولت میں سے ذرا سا حصہ اللّٰہ کے بندوں کی فلاح و بہبود کے لیے صرف کرنے کا حکم ہے۔ روزہ سے انسان میں احساس ذمہ داری پروان چڑھتی ہے۔ اور سماجی نظام میں توازن برقرار رہتا ہے۔
:رمضان المبارک – آخرت میں سربلندی کا خاص موقع
بالآخر ہمیں یہ بات ازبر ہونی چاہیے کہ ہم اس نبی کریم ﷺ کی امت ہیں جنہیں صرف مسلمان، عورت، مرد یا اس دنیا کے لئے ہی نہیں بلکہ پورے عالم کائنات کے لئے رحمت بنا کر بھیجا گیا تھا۔ ان کی قوم ہونے کے ناطے یہ ہم پر لازم و ملزوم ہے کہ ہم آنحضرت ﷺ کے بتائے گئے طریقے کے مطابق رمضان المبارک گزاریں۔ اللّٰہ رب العزت کے احکامات اور رسول ﷺ کی سنتوں کا چلتا پھرتا نمونہ بن جائیں۔ رمضان المبارک تو روحانی اور اخلاقی بیداری کا دوسرا نام ہے۔ روزہ کا اصل مقصد اپنی زندگی میں تقویٰ اور پرہیز گاری کو نافذ کرنا ہے۔ غریب غربا کے درد، دکھ، تکالیف اور پریشانیوں کو سمجھنا اور ان کا مداوا کرنے کی کوشش کرنا رمضان المبارک کی نیکیوں میں سے ایک ہے۔ غریبوں، ناداروں اور یتیموں کی مدد کرنے سے ہماری دولت اور نعمتوں میں ذرا سی بھی کمی نہیں آتی، بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ ہمارے ساتھ سخاوت اور فیاضی کا معاملہ کرتا ہے۔ آج ہی ارادہ کریں کہ رمضان المبارک کا ایک لمحہ بھی ہم ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ ہر ایک لمحے میں نیکی اور ثواب حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔ اصل معنوں میں ہر طرح کی برائی سے دور رہیں گے اور آگے بھی اسی نظم و ضبط کے ساتھ آنے والے سال میں ان ا چھے اور نیک اطوار کو اپنی زندگی میں پوری ایمانداری سے نافذ کرنے کی کوشش کریں گے۔
خان صائمہ عتیق الرحمٰن–
(مضمون نگار ریسرچ اسکالرہیں۔)